نہ سیو ہونٹ نہ خوابوں میں صدا دو ہم کو
مصلØ+ت کا یہ تقاضا ہے، بھلا دو ہم Ú©Ùˆ

جرمِ سقراط سے ہٹ کر نہ سزا دو ہم کو
زہر رکھا ہے تو یہ آبِ بقا دو ہم کو

بستیاں آگ میں بہہ جائیں کہ پتھر برسیں
ہم اگر سوئے ہوئے ہیں تو جگا دو ہم کو

ہم Ø+قیقت ہیں تو تسلیم نہ کرنے کا سبب؟
ہاں اگر Ø+رفِ غلط ہیں تو مٹا دو ہم Ú©Ùˆ

خضر مشہور ہو الیاس بنے پھرتے ہو
کب سے ہم گم سم ہیں ہمارا تو پتہ دو ہم کو

زیست ہے اس سØ+ر Ùˆ شام سے بیزار Ùˆ زبوں
لالہ Ùˆ Ú¯Ù„ Ú©ÛŒ طرØ+ رنگِ قبا دو ہم Ú©Ùˆ

شورشِ عشق میں ہے Ø+سن برابر کا شریک
سوچ کر جرمِ تمنّا کی سزا دو ہم کو